Allama Iqbal poetry- Allama Iqbal poetry in Urdu
لوح بھی تو قلم بھی تو تیرا وجود الکتاب
گنبدِ آبگینہ رنگ تیرے محیط میں حباب
اے میرے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ سب کچھ ہیں یعنی سب کچھ آپ ہی کے وجود مسعود کی بدولت عالم وجود میں آیا۔ اگر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نہ ہوتے تو نہ لوح ہوتی نہ قلم ہوتا اور نہ کتاب ہوتی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان کا اندازہ اس بات سے ہوسکتا ہے کہ یہ آسمان جس کے طول و عرض کا کچھ پتہ نہیں ہے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے اس کی حقیقت ایسی ہے جیسے سمندر کے مقابلے میں ایک بلبلہ
عالم آب و خاک میں تیرے ظہور سے فروغ
ذرہ ریگ کو دیا تو نے طلوع آفتاب
اس کائنات کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کے ظہور سے فروغ حاصل ہوا. آپ ہی کے قدموں کی برکت سے ذرہ ریگ یعنی بلال حبشی دنیا میں آفتاب یعنی کہ سید نا بلال بن کر چمکا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی کفش برداری کا یہ نتیجہ تھا کہ امیرالمومنین فاروق اعظم حضرت بلال کو سیدنا بلال کہتے تھے. آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نگاہ کیمیا کا اثر تھا کہ حضرت اسامہ ابن زید اسلامی فوج کے سپہ سالار مقرر ہوئے جو ایک غلام کے بیٹے تھے
شوکت سنجر و سلیم تیرے جلال کی نمود
فقر جنید و بایزید تیرا جمال بے نقاب
سلطان سنجار اور سلطان سلیم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان جلال اور حضرت جنید بغدادی اور حضرت بایزید بسطامی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان جمال کے مظہر ہیں
شوق ترا اگر نہ ہو میری نماز کا امام
میرا قیام بھی حجاب میرا سجود بھی حجاب
اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت یعنی آپ صلی اللہ وسلم کی اتباع کا جذبہ ارکان شریعت کی بجاآوری کا محرک نہ ہو تو کوئی عبادت اللہ کی بارگاہ میں مقبول نہیں ہو سکتی۔
تیری نگاہ ناز سے دونوں مراد پا گئے
عقل غیاب و جستجو, عشق حضور و اضطراب
یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کا تو فیض ہے کہ عقل اور عشق دونوں اپنی اپنی مراد پا گئے۔ عقل غیاب و جستجو کی طلب تھی یہ دولت اسے مل گئی اور عشق حضور و اضطراب کا آرزو مند تھا یہ نعمت اسے عطا ہوگی۔
واضح ہو کہ ذات عقل کا یہ تقاضہ ہے کہ اس میں غیاب اور جستجو یعنی کے مقصد سے دور رہنا اور تلاش کرنا کا رنگ پایا جائے۔اور ذات عشق اس کی مقتضی ہے کہ اس میں حضوراور اضطراب کی کیفیت پائی جائے یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بدولت ہر شے کو اس کی صورت نوعیہ نصیب ہوئی۔
حضور و اضطراب ,غیاب و جستجو کی ضد ہے اسی لئے عقل عشق کی ضد ہے اور اسی لئے دونوں کی تقدیر جداگانہ ہے۔عقل غیاب یعنی دور رہنے کی حالت سے مطمئن ہو سکتی ہے لیکن عشق مطمئن نہیں ہو سکتا، وہ حضور کا طالب ہے وہ تو محبوب کو بے پردہ آمنے سامنے دیکھنا چاہتا ہے۔
تیرہ و تار ہے جہاں گردش آفتاب سے
طبع زمانہ تازہ کر جلوہ بے حجاب سے
اے میرے آقا جلوہ آفتاب سے مادی اشیاء منور ہو سکتی ہیں لیکن انسانی قلب منور نہیں ہوسکتے۔ بالفاظ دیگر مادہ پرستی کی وجہ سے یہ دنیا روحانیت سے محروم ہوگئی ہے اس لئے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے التجا کرتا ہوں کے آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے روحانی فیض سے اس دور میں بھی دنیا کو منور کر دیجئے۔
********
Must Read:- Jaun Elia Poetry
کی محمد سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں
عصر حاضر ملک الموت ہے تیرا جس نے
قبض کی روح تری دے کے تجھے فکر معاش
دانش حاضر حجاب اکبر است
بت پرست و بت فروش و بت گر
Must Read:- sad poetry in urdu
سوز عشق از دانش حاضر مجوئے
کیف حق از جام ایں کافر مجوئے
________
0 comments:
how can we help you?